ہم نے رکھ دی جان ہتھیلی پر کسی آشنا کے لیے
ہم نے رکھ دی جاں ہتھیلی پر کسی آشنا کے لیے
ہم دہر میں آئے ہی ہیں شاید اُسی شناسا کے لیے
خور بھی اگر جلتا ہے تو بس تیری چمک سے
وہ تمہیں دیکھتا ہے تو فقط اپنی زیا کے لیے
جلوہ گر کر بھی دے کبھی یہ غزال سے آنکھیں
اور دَشت میں کر دے بارش پھر ہمیشہ کے لئے
تمہاری زلف کی زنجیروں میں گرفتار ہو جائیں
اور پھر کوئی بھی نہ آئے ہماری رہا کے لئے
میرے اندر سکوت کا ٹھہراؤ کرنے والے بتا
یہ کیسا شور مچا کے رکھا ہے سدا کے لئے
فیضان تمہاری الجھنوں کا سبب پوچھتا ہے
کبھی جنبشِ لب تو کیا کر خدا کے لیے
Comments
Post a Comment