چھوڑا اُس کو سوچنا اُس رات کے بعد
آخری بار بیگھے تھے اُس برسات کے بعد
ایک بار بھی مڑ کر نہ دیکھا اُس نے
بے آبرو کر گئے اُس ملاقات کے بعد
غیروں سے ملتا جلتا رویہ ہے اُن کا
میں رہا ہی کیا میری اوقات کے بعد
یہ فضا بھی خوشگوار نہ رہی باقی
تیرے اور میرے فسادات کے بعد
آوارگی بنی رہی زینت ایک مدت تک
حاصل کیا ہوا ہے میری حیات کے بعد
زندگی میں نہ پوچھا حال کسی نے
خبر پوچھنے آئے مگر وفات کے بعد
وہ نظر آتش کر رہا ہے ہماری بستی کو
اُس کا گھر! دیکھنا، ان مکانات کے بعد
اب تلاشِ زیست کا غم ہے فیضانؔ
کہاں بھٹک گۓ اُس ثبات کے بعد
Comments
Post a Comment