Posts

Showing posts from November, 2022

دل کے دریچوں پہ۔۔۔

وہ دل کے دریچوں پہ سنور کے بیٹھے ہیں جیسے ستارے فلک سے اُتر کے بیٹھے ہیں آنکھوں کو مَل مَل کے میں اُسے دیکھتا ہوں وہ پیالوں میں شرابیں بھر کے بیٹھے ہیں  بَزم میں یوں ہی نہیں تُم پہ نِگاہ ٹھہری  ایسی ہی اداؤں پہ تو ہم مر کے بیٹھے ہیں کتنے اوراق پہ مشتمل کریں ہم یہ کہانی جو زبانی اپنے سینے میں دھر کے بیٹھے ہے اب چاہتے ہیں کہ جاؤں کبھی اُسکی جانب کہ اِک زمانے سے تو صبر کر کے بیٹھے ہیں  فیضانؔ پاس سے نہ پائے تو فَسردہ رہتا ہے وہ کِس بات پہ پِھر منہ اُدھر کر کے بیٹھے ہیں ( احمد فیضان )

تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے

  تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے گمان سے بالا تر کتنے سراب دیکھے ہم نے تو کہ جس میں جان میری بستی تھی کبھی پھر کیوں درمیاں میں اتنے حجاب دیکھے ہم نے کبھی کہا تھا تم نے کہ  ایک کتاب ہوں میں اس کتاب کے لیکن کتنے باب دیکھے ہم نے اِک تیرا چہرہ بس چکا میری نظروں میں ورنہ کہکشاں میں خوشنما کتنے مہتاب دیکھے ہم  نے تو لب سے نمایا نہ کر پھر بھی ظاہر ہے ان سُرمہ چشموں میں کتنے دستیاب دیکھے ہم نے پروانے کی مانند جل گیا اس کی گردش میں یک طرفہ محبت میں کتنے کامیاب دیکھے ہم نے فقط ایک تو ہی نہیں اس حالت میں فیضانؔ اُس کے شہر میں مرجے کتنے گلاب دیکھے ہم نے