تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے

 


تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے

گمان سے بالا تر کتنے سراب دیکھے ہم نے


تو کہ جس میں جان میری بستی تھی کبھی

پھر کیوں درمیاں میں اتنے حجاب دیکھے ہم نے


کبھی کہا تھا تم نے کہ  ایک کتاب ہوں میں

اس کتاب کے لیکن کتنے باب دیکھے ہم نے


اِک تیرا چہرہ بس چکا میری نظروں میں ورنہ

کہکشاں میں خوشنما کتنے مہتاب دیکھے ہم  نے


تو لب سے نمایا نہ کر پھر بھی ظاہر ہے

ان سُرمہ چشموں میں کتنے دستیاب دیکھے ہم نے


پروانے کی مانند جل گیا اس کی گردش میں

یک طرفہ محبت میں کتنے کامیاب دیکھے ہم نے


فقط ایک تو ہی نہیں اس حالت میں فیضانؔ

اُس کے شہر میں مرجے کتنے گلاب دیکھے ہم نے

Comments

Popular posts from this blog

اے خدا نہ غم سے دوچار کر مجھے

دل کے دریچوں پہ۔۔۔

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا