دل کے دریچوں پہ۔۔۔



وہ دل کے دریچوں پہ سنور کے بیٹھے ہیں

جیسے ستارے فلک سے اُتر کے بیٹھے ہیں


آنکھوں کو مَل مَل کے میں اُسے دیکھتا ہوں

وہ پیالوں میں شرابیں بھر کے بیٹھے ہیں 


بَزم میں یوں ہی نہیں تُم پہ نِگاہ ٹھہری 

ایسی ہی اداؤں پہ تو ہم مر کے بیٹھے ہیں


کتنے اوراق پہ مشتمل کریں ہم یہ کہانی

جو زبانی اپنے سینے میں دھر کے بیٹھے ہے


اب چاہتے ہیں کہ جاؤں کبھی اُسکی جانب

کہ اِک زمانے سے تو صبر کر کے بیٹھے ہیں 


فیضانؔ پاس سے نہ پائے تو فَسردہ رہتا ہے

وہ کِس بات پہ پِھر منہ اُدھر کر کے بیٹھے ہیں


( احمد فیضان )

Comments

Popular posts from this blog

اے خدا نہ غم سے دوچار کر مجھے

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا