صدیاں ہوتے ہوئے

 


احمد فیضان










ہاں،صدیاں ہوئیں پریشاں ہوتے ہوئے

محفلِ آرزو  میں جاناں  ہوتے ہوئے


یہ جانتے ہوئے پھر بھی چل پڑا وہاں

وہ سماں محض اِک دُھواں ہوتے ہوئے


آزاد پرواز کی تمنّا تھی پرندے کو

اگرچہ شاملِ زنجیرِ زنداں ہوتے ہوئے 


خالقِ بر حق سے بہت بیوفائی کی 

اے بےخبر تم نے انساں ہوتے ہوئے


 اُس پاسباں کو کچھ بھی یاد نہیں

ميرا عشق اِک داستاں ہوتے ہوئے 


فیضانؔ پھر بھی لگتا ہے کہیں ہے وہ 

اِس جُدائی کو اگر صدیاں ہوتے ہوئے 


________________

Comments

Popular posts from this blog

اے خدا نہ غم سے دوچار کر مجھے

دل کے دریچوں پہ۔۔۔

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا