Posts

دِل کو تیری یاد میں بے صبر رہنے دیا

 Ahmed Faizan احمد فیضان                دِل کو تیری   یاد میں بے صبر رہنے دیا                 اور یہ بھی کہ تجھ کو بے خبر رہنے دیا                  کئی کے   فراق   میں  گزار دی ہے زندگی                  کئی   کو   فراق  میں  عمر  بھر رہنے دیا                  سکوتِ   شہر  سے  کئی  دور جا  کر پھر                 تیرا  ملال  تا   عمر دل میں بسر رہنے دیا                  !آتشِ   عشق   میں   کیا   کچھ  رہا  باقی              سب  شاخیں  جلا  دیں  مگر شجر رہنے ...

صدیاں ہوتے ہوئے

Image
  احمد فیضان ہاں،صدیاں ہوئیں پریشاں ہوتے ہوئے محفلِ آرزو  میں جاناں  ہوتے ہوئے یہ جانتے ہوئے پھر بھی چل پڑا وہاں وہ سماں محض اِک دُھواں ہوتے ہوئے آزاد پرواز کی تمنّا تھی پرندے کو اگرچہ شاملِ زنجیرِ زنداں ہوتے ہوئے  خالقِ بر حق سے بہت بیوفائی کی  اے بےخبر تم نے انساں ہوتے ہوئے  اُس پاسباں کو کچھ بھی یاد نہیں ميرا عشق اِک داستاں ہوتے ہوئے  فیضانؔ پھر بھی لگتا ہے کہیں ہے وہ  اِس جُدائی کو اگر صدیاں ہوتے ہوئے  ________________

دل کے دریچوں پہ۔۔۔

وہ دل کے دریچوں پہ سنور کے بیٹھے ہیں جیسے ستارے فلک سے اُتر کے بیٹھے ہیں آنکھوں کو مَل مَل کے میں اُسے دیکھتا ہوں وہ پیالوں میں شرابیں بھر کے بیٹھے ہیں  بَزم میں یوں ہی نہیں تُم پہ نِگاہ ٹھہری  ایسی ہی اداؤں پہ تو ہم مر کے بیٹھے ہیں کتنے اوراق پہ مشتمل کریں ہم یہ کہانی جو زبانی اپنے سینے میں دھر کے بیٹھے ہے اب چاہتے ہیں کہ جاؤں کبھی اُسکی جانب کہ اِک زمانے سے تو صبر کر کے بیٹھے ہیں  فیضانؔ پاس سے نہ پائے تو فَسردہ رہتا ہے وہ کِس بات پہ پِھر منہ اُدھر کر کے بیٹھے ہیں ( احمد فیضان )

تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے

  تیرے سرہانے سوئے کتنے خواب دیکھے ہم نے گمان سے بالا تر کتنے سراب دیکھے ہم نے تو کہ جس میں جان میری بستی تھی کبھی پھر کیوں درمیاں میں اتنے حجاب دیکھے ہم نے کبھی کہا تھا تم نے کہ  ایک کتاب ہوں میں اس کتاب کے لیکن کتنے باب دیکھے ہم نے اِک تیرا چہرہ بس چکا میری نظروں میں ورنہ کہکشاں میں خوشنما کتنے مہتاب دیکھے ہم  نے تو لب سے نمایا نہ کر پھر بھی ظاہر ہے ان سُرمہ چشموں میں کتنے دستیاب دیکھے ہم نے پروانے کی مانند جل گیا اس کی گردش میں یک طرفہ محبت میں کتنے کامیاب دیکھے ہم نے فقط ایک تو ہی نہیں اس حالت میں فیضانؔ اُس کے شہر میں مرجے کتنے گلاب دیکھے ہم نے

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا ہمارا دل ہے يا ہے جیسے کھلونا کسی کا ستارو   اپنی   آغوش  میں لے  جاؤ  مجھ کو یہاں میرے ہونے سے دل دکھتا ہے کسی کا ابھی تیرے نام کی تسبیح بھولا بھی نہیں کہ تم نے مہندی پے نام لکھوا دیا کسی کا نہ زمیں کے رہے ہم نہ آسماں رہا مقدر اپنا اور وہاں ہمارا پھول گلدستہ بن گیا کسی کا اگرچہ اب رسوائی کے سوا کچھ نہیں فیضانؔ کبھی دل ہوا کرتا تھا میں بھی کسی کا __فیضان __

اے خدا نہ غم سے دوچار کر مجھے

اے خدا نہ غم سے دو چار کر مجھے اگر یوں ہے پھرتا عمر بیمار کر مجھے کوئی پھر نہ بن سکے بیساکھی میری یعنی اس حد تک تو لاچار کے مجھے ہم جو مرجائیں تو یہیں ان وادیوں پر آہستہ لڑکھڑاتے  ہوئے  آبشار کر مجھے کوئی نفرت بھی کرے تو بڑے شوق سے  محبت کا تیر مگر جگر کے پار کر مجھے کبھی بھرم  تو رکھ  میرے وعدے کا اس  طرح  سے  تو  نہ  خار کر مجھے محبت سے منسوب رہے یہ نام  فیضانؔ پروردگار  اس قدر مشک دار کر مجھے __فیضانؔ__

اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا

  اب تک یاد ہے مجھ کو وہ ستانا کسی کا ہمارا دل ہے يا ہے جیسے کھلونا کسی کا ستارو اپنی آغوش میں لے جاؤ مجھ کو یہاں میرے ہونے سے دل دکھتا ہے کسی کا ابھی تیرے نام کی تسبیح بھولا بھی نہیں کہ تم نے مہندی پے نام لکھوا دیا کسی کا نہ زمیں کے رہے ہم نہ آسماں رہا مقدر اپنا اور وہاں ہمارا پھول گلدستہ بن گیا کسی کا اگرچہ اب رسوائی کے سوا کچھ نہیں فیضانؔ   ایک رمانے میں دل ہوا کرتا تھا میں کسی کا  __فیضاؔن مقبول__